عمرو اور ناگ طلسم
عمرو عیار سردار امیر حمزہ کے دربار میں حاضر ہوا تو وہ بے احتیار چونک پڑا کیونکہ سردار امیر حمزہ کے پاس ملک یمن کے بادشاہ سلامت بیٹھے ہوئے تھے۔عمرو ملک یمن کے بادشاہ کو بہوبی جانتا تھا۔ان کو سردار امیر حمزہ کے پاس بیٹے دیکھ کر وہ حیران ہوئے بغیر نا رہ سکا۔چند لمحے قبل عمرو کو سردار امیر حمزہ نے بلایا تھا۔جو خادم سردار امیر حمزہ کا پیغام لایا تھا اس نے عمرو کو ملک یمن کے بادشاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا تھا ارو نہ ہی سردار امیر حمزہ کے خیمے کے باہر موجود دربانوں نے ان کا ذکر کیاتھا۔عمرو نے خیمے میں داخل ہو کر سلام کیا تو سردار امیر حمزہ اور یمن کے بادشاہ سلامت چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
آو عمرو عیار ۔ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔سردار امیر حمزہ نے عمرو کے سلام کا جواب دیتے ہوئےکہا۔عمرو نے آگے بڑھ کر بڑے پر تپاک انداز میں یمن کے بادشاہ سے ہاتھ ملایا اور سردار امیر حمزہ کے کہنے پر ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
"عمرو۔شاہ یمن تم سے حصوصی ملاقات کیلیے آئے ہیں"۔سردار امیر حمزہ نے عمرو سے مخاطب ہو کر کہا۔
" مجھ سے ۔اوہ۔ایسی بات تھی تو آپ مجھے بلا لیتے بادشاہ سلامت ۔میں سر کے بل آپ کے پاس پہنچ جاتا"۔عمرو عیار نے شاہ یمن کی طرف دیکھتے ہویے کہا۔
"بات ہی کچھ ایسی ہے عمرو عیار کہ ہمیں خود چل کر تمہارے پاس آنا پڑا ہے"شاہ یمن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"فرمائیں بادشاہ سلامت۔میں ناچیز اپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں"۔عمرو نے مودبانہ انداز میں کہا۔
"عمرو عیار تم جانتے ہو ہماری تین بیٹیاں ہیں۔پچھلے سال ہم نے اپنی بڑی بیٹی شہزادی آمنہ کی شادی ملک ایران کے وزیر زادہ آصف سے کی تھی"۔شاہ یمن نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
" جی ہاں بادشاہ سلامت۔اس شادی میں آپ نے مجھے بلایا تھا لیکن میں مصروفیت کی وجہ سے اس میں شادی میں شریک نا ہو سکا"۔عمرو نے کہا
"ہاں باہرحال اس سال ہم نے اپنی دوسری دونوں بیٹیوں کی شادیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان دونوں کے رشتے بھی ایران کے سپہ سالار جعفر اور شہزاد عرفان سے طے ہو چکے ہیں۔دونوں طرف سے شادیوں کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کہ ہمیں ایک اطلاع ملی۔اس اطلاع کے مطابق شہزادہ عرفان،سپہ سالار جعفر اور وزیر زادہ آصف لاپتہ ہو گئے ہیں۔وہ تینوں عموما" رات کے وقت گھوڑوں پر سیر کیلیے نکلتے تھے اور شہر میں گھومتے پھرتے رہتے تھے اور پھر رات گئے واپس لوٹتے تھے۔
آج سے دس روز قبل وہ تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلے۔رات گزر گئ مگر وہ واپس نہ آئے۔یہاں تک کہ اگلا دن اور اگلی رات بھی گزر گئ مگر وہ تینوں واپس نہ آئے تو بادشاہ سلامت،وزیراعظم اور سپہ سالار کے باپ کو فکر لاخق ہونے لگی۔ان تینوں کی تلاش میں انہوں نےہر طرف سپاہی بھیج دیے مگر ان تینوں کا کچھ پتہ نہ چلا۔اب تو بادشاہ سلامت،وزیراعظم اور سپہ سالار کے باپ کی پریشانی کی حد نہ رہی۔ مزید پڑھیں
آو عمرو عیار ۔ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔سردار امیر حمزہ نے عمرو کے سلام کا جواب دیتے ہوئےکہا۔عمرو نے آگے بڑھ کر بڑے پر تپاک انداز میں یمن کے بادشاہ سے ہاتھ ملایا اور سردار امیر حمزہ کے کہنے پر ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
"عمرو۔شاہ یمن تم سے حصوصی ملاقات کیلیے آئے ہیں"۔سردار امیر حمزہ نے عمرو سے مخاطب ہو کر کہا۔
" مجھ سے ۔اوہ۔ایسی بات تھی تو آپ مجھے بلا لیتے بادشاہ سلامت ۔میں سر کے بل آپ کے پاس پہنچ جاتا"۔عمرو عیار نے شاہ یمن کی طرف دیکھتے ہویے کہا۔
"بات ہی کچھ ایسی ہے عمرو عیار کہ ہمیں خود چل کر تمہارے پاس آنا پڑا ہے"شاہ یمن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"فرمائیں بادشاہ سلامت۔میں ناچیز اپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں"۔عمرو نے مودبانہ انداز میں کہا۔
"عمرو عیار تم جانتے ہو ہماری تین بیٹیاں ہیں۔پچھلے سال ہم نے اپنی بڑی بیٹی شہزادی آمنہ کی شادی ملک ایران کے وزیر زادہ آصف سے کی تھی"۔شاہ یمن نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
" جی ہاں بادشاہ سلامت۔اس شادی میں آپ نے مجھے بلایا تھا لیکن میں مصروفیت کی وجہ سے اس میں شادی میں شریک نا ہو سکا"۔عمرو نے کہا
"ہاں باہرحال اس سال ہم نے اپنی دوسری دونوں بیٹیوں کی شادیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان دونوں کے رشتے بھی ایران کے سپہ سالار جعفر اور شہزاد عرفان سے طے ہو چکے ہیں۔دونوں طرف سے شادیوں کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کہ ہمیں ایک اطلاع ملی۔اس اطلاع کے مطابق شہزادہ عرفان،سپہ سالار جعفر اور وزیر زادہ آصف لاپتہ ہو گئے ہیں۔وہ تینوں عموما" رات کے وقت گھوڑوں پر سیر کیلیے نکلتے تھے اور شہر میں گھومتے پھرتے رہتے تھے اور پھر رات گئے واپس لوٹتے تھے۔
آج سے دس روز قبل وہ تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلے۔رات گزر گئ مگر وہ واپس نہ آئے۔یہاں تک کہ اگلا دن اور اگلی رات بھی گزر گئ مگر وہ تینوں واپس نہ آئے تو بادشاہ سلامت،وزیراعظم اور سپہ سالار کے باپ کو فکر لاخق ہونے لگی۔ان تینوں کی تلاش میں انہوں نےہر طرف سپاہی بھیج دیے مگر ان تینوں کا کچھ پتہ نہ چلا۔اب تو بادشاہ سلامت،وزیراعظم اور سپہ سالار کے باپ کی پریشانی کی حد نہ رہی۔ مزید پڑھیں